“فاروق ستار کا پیپلز پارٹی پر سخت وار: ‘اجرک کے نام پر ووٹ بیچنے کی تیاری’”

تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی بات چیت میں پیپلز پارٹی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ اب الیکشن میں اجرک کے نام پر ووٹ مانگنے کی پلاننگ ہو رہی ہے۔
ان کے الفاظ تھے: “معصوم سندھی بھائیوں کی آنکھوں میں اجرک دکھا کر ووٹ لینے کی تیاری ہے۔ اب تو نمبر پلیٹ کے نام پر بھی اجرک بیچنے کا ارادہ ہے؟”
فاروق ستار نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو بھی سمجھ آ گیا ہے کہ اب “زندہ ہے بھٹو” کا نعرہ وہ اثر نہیں کرے گا جو پہلے کرتا تھا۔
ان کے بقول لوگ جان چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی تو خود زندہ ہے، بس بھٹو کے نعرے کو استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ “یہ لوگ زندہ ہے بھٹو کے نعرے پر پل رہے ہیں، لوٹ مار کر رہے ہیں، اور بھٹو، بے نظیر کی قربانیوں کو بیچ رہے ہیں۔”
اسی موقع پر انہوں نے تجویز دی کہ اگر گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پر کوئی چیز لکھنی ہے تو قومی پرچم یا قائد اعظم کا قول لکھو، یہ اجرک کے نام پر شہریوں سے پیسے کیوں لو؟
ان کا الزام تھا کہ اندرون سندھ سے ٹریفک اہلکاروں کو لا کر جیبیں گرم کی جا رہی ہیں۔
فاروق ستار نے صاف الفاظ میں کہا کہ ایم کیو ایم اس “اجرک نمبر پلیٹ” کے مسئلے پر احتجاج کرنے جا رہی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ “جب لوگوں کے پاس پہلے ہی گاڑی کی نمبر پلیٹ موجود ہے تو پھر اجرک والی پلیٹ کا اجرا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟”
اسی انٹرویو میں فاروق ستار نے لیاری بلڈنگ حادثے پر بھی سندھ حکومت پر سخت تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ لیاری کے اس افسوسناک حادثے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔
انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ سندھ حکومت اس حادثے کا حساب کتاب کب دے گی؟
وزیر بلدیات پر بھی انہوں نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
انہوں نے کہا، “وزیر صاحب بتائیں کہ مخدوش عمارتوں کے بارے میں کتنی میٹنگز کیں؟ کیا کوئی ڈیڈ لائن دی؟ مکینوں کے لیے کیا متبادل انتظام کیا؟”
فاروق ستار نے الزام لگایا کہ ان عمارتوں کو نوٹس دینا دراصل اپنی نااہلی اور کوتاہی چھپانے کا بہانہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر بلدیات کو چاہیے تھا کہ انکوائری مکمل ہونے تک خود ہی استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے۔
مرتضیٰ وہاب کے بیان پر بات کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ شہر کے تباہ حال انفراسٹرکچر پر میئر کراچی کا بیان سن کر ہنسی آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 18 ٹاؤن چیئرمینز چاہے کسی بھی جماعت سے ہوں، میئر کو سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تھا۔