ٹیکنالوجی July 13, 2025 Shahbaz Sayed

امریکا میں خودکار روبوٹک سرجری کی بڑی پیش رفت – بغیر انسان کے ہدایت کے پِتہ نکالنے کا کامیاب آپریشن

یار یہ بڑی زبردست اور دلچسپ خبر ہے — امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے محققین نے روبوٹک سرجری کے میدان میں شاندار کامیابی حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے مصنوعی ذہانت سے لیس ایک روبوٹک سسٹم بنایا ہے جس نے بغیر کسی انسان کی براہِ راست مداخلت کے پِتہ (گالبلیڈر) نکالنے کے آپریشن کامیابی سے کر لیے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ واقعی ایک اہم سنگ میل ہے، کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں روبوٹس کچھ سرجیکل کام بالکل خودکار طریقے سے کر سکیں گے۔

یہ کارنامہ ایک خاص سسٹم کی مدد سے انجام پایا جسے سرجیکل روبوٹ ٹرانسفارمر ہائیرارکی کہتے ہیں۔ اس میں مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر وژن کی ٹیکنالوجی شامل ہے، جو ویڈیوز اور تصاویر کو بالکل انسانوں کی طرح سمجھ سکتا ہے۔

ماہرین نے اس روبوٹ کو خنزیروں پر کی جانے والی سرجری کی ویڈیوز دکھائیں اور نیچرل لینگویج میں ہدایات بھی دیں۔ روبوٹ نے ان ویڈیوز سے سیکھا اور پھر 8 بار پِتہ نکالنے کا عمل پوری درستی کے ساتھ دہرایا — اور یہ سب انسانی سرجن کی براہِ راست رہنمائی کے بغیر ہوا۔

یہ روبوٹ اتنا اسمارٹ ہے کہ آپریشن کے دوران انسانی آواز پر مبنی ہدایات جیسے “گالبلیڈر کو تھامو” یا “بائیں بازو کو ذرا بائیں کرو” بھی سمجھ کر ان پر عمل کر سکتا ہے، اور اس سے سیکھتا بھی رہتا ہے۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ محققین نے اس کا امتحان لینے کے لیے آپریشن کے ماحول میں خون جیسا رنگ ڈال کر اسے مزید مشکل بنایا، تاکہ بافتوں کو پہچاننا مشکل ہو جائے۔ مگر اس روبوٹ نے پھر بھی بالکل صحیح کلپس لگائے اور مطلوبہ حصوں کو درست انداز میں الگ کیا۔

یہ بھی یاد رکھو کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں پِتہ نکالنے کی سرجریاں کی جاتی ہیں۔ ایسے خودکار روبوٹس مستقبل میں ان سرجریوں میں سرجنز کی بڑی مدد کر سکتے ہیں۔

اس سسٹم کے سربراہ محقق، جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایکسل کریگر کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی اب ان روایتی روبوٹس سے آگے بڑھ رہی ہے جو صرف مخصوص حرکتیں دہراتے ہیں۔ اب بات ایسے روبوٹس کی ہو رہی ہے جو پورے آپریشن کو سمجھ سکیں اور آپریشن کے دوران بدلتی ہوئی صورتحال میں خود کو ڈھال سکیں۔

کریگر کے مطابق یہ سسٹم بھی اسی قسم کی مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے جس کا استعمال چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرامز میں ہوتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مریض کے جسمانی خدوخال کو براہِ راست دیکھ کر فوری فیصلے کر سکتا ہے اور اپنی حکمت عملی کو درست بھی کر سکتا ہے۔

جان ہاپکنز کی ٹیم کا اگلا ہدف یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو اور زیادہ پیچیدہ آپریشنز کے قابل بنایا جائے، تاکہ روبوٹک سرجنز نہ صرف مسلسل درستگی کے ساتھ کام کریں بلکہ ایسے حالات میں بھی بہترین پرفارم کریں جہاں انسانی سرجنز تھکاوٹ یا ہاتھوں کے لرزنے جیسی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہیں۔

البتہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ مکمل خودکار روبوٹک سرجری کو عام کرنے میں ابھی وقت لگے گا اور یہ ایک طویل سفر ہے، مگر یہ جو کامیابی ہے — یہ اس سفر کی واقعی بہت بڑی شروعات ہے۔

Ask ChatGPT