دنیا July 4, 2025 Shahbaz Sayed

ایران اور IAEA میں کشیدگی – تعاون محدود، خطے میں تناؤ بڑھنے کا خدشہ

دیکھو، تازہ خبر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے IAEA نے بتایا ہے کہ ان کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم آج ایران سے بحفاظت واپس ویانا، آسٹریا پہنچ گئی ہے۔ ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ نگرانی اور معائنے کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنا ان کے لیے بہت اہم ہے، اور اس سلسلے میں بات چیت کی اہمیت کو بھی دہرایا۔

یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب ایران کے نئے صدر مسعود پیزشکیان نے حال ہی میں ایک قانون پر دستخط کیے ہیں جس کے بعد IAEA کے ساتھ تعاون کو عملاً محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ قانون ایران میں اس وقت پیش ہوا جب گزشتہ ماہ اسرائیل اور امریکا پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔

اب اس نئے قانون کے مطابق، اقوام متحدہ کے معائنہ کار ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کی منظوری کے بغیر جوہری مقامات کا دورہ نہیں کر سکیں گے۔ یعنی ایران نے IAEA کے ساتھ تعاون مشروط کر دیا ہے۔

ایران نے یہ قانون اپنی پارلیمنٹ (مجلس شورائے اسلامی) میں 25 جون کو پاس کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کے حق میں 223 میں سے 221 ووٹ پڑے، ایک ووٹ نیوٹرل رہا اور مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔ اسی دن ایران کی آئینی نگران کونسل نے بھی اس بل کی منظوری دے دی، جس سے یہ حکومت کے لیے لازم الاجرا ہو گیا۔

ایران کا کہنا ہے کہ اس اقدام کی وجہ یہ ہے کہ IAEA ایرانی تنصیبات پر حملے رکوانے میں ناکام رہا اور ان حملوں کی مذمت بھی نہیں کی۔ ایران کے مطابق جب تک اس کی سیکیورٹی کا تحفظ یقینی نہیں ہوتا، وہ اپنے جوہری پروگرام کی تفصیلات ہر کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتا۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے وضاحت کی ہے کہ ایران اب بھی این پی ٹی (جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ) کا پابند ہے اور IAEA کے سیف گارڈ معاہدے پر عمل جاری رکھے گا، لیکن جوہری تعاون اب ایران کی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کی منظوری سے ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے بعد یہ ایک “احتیاطی قدم” ہے۔

اس سارے معاملے پر جرمنی نے شدید تنقید کی ہے اور ایران کے اس نئے قانون کو “تباہ کن پیغام” قرار دیا ہے۔ ایران نے جرمنی کی تنقید کا سخت جواب دیا اور کہا کہ جرمن حکومت ایرانیوں کے خلاف بدنیتی رکھتی ہے، ساتھ ہی اسرائیل کی حمایت پر بھی ناراضی کا اظہار کیا۔

اب اس سب کے بعد ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی مزید مشکل نظر آتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کہتی ہیں کہ اس سے خطے میں تناؤ بھی مزید بڑھ سکتا ہے۔


تھوڑی وضاحت این پی ٹی معاہدے کی بھی:

این پی ٹی یعنی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ 1968 میں طے پایا تھا اور 1970 میں نافذ ہوا۔ اس پر ایران سمیت 190 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت ملک سویلین یعنی پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام رکھ سکتے ہیں، لیکن جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتے۔

البتہ اسرائیل، بھارت، پاکستان اور جنوبی سوڈان نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔ شمالی کوریا نے پہلے اس پر دستخط کیے تھے لیکن بعد میں اس سے نکل گیا۔

خاص بات یہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی اپنے جوہری پروگرام یا تنصیبات کی عالمی جانچ کی اجازت نہیں دی اور اس پر مبہم پالیسی رکھی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ایران اور عرب ممالک طویل عرصے سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالا جائے تاکہ وہ اپنا اسلحہ ختم کرے اور جوہری پروگرام شفاف بنائے۔

ایران کہتا ہے کہ اس کا پروگرام پرامن ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانا نہیں چاہتا، لیکن دنیا کے بہت سے ممالک اس دعوے پر شک بھی کرتے ہیں۔