دنیا June 22, 2025 Shahbaz Sayed

🔴 امریکی حملہ: ایران جوہری کشیدگی پر برطانوی وزیراعظم، یورپ، آسٹریلیا و لاطینی امریکا کا ردعمل

ایران پر امریکی حملے کے بعد عالمی سطح پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے حملے سے قبل برطانیہ کو آگاہ کیا تھا، تاہم برطانیہ اس کارروائی کا حصہ نہیں تھا۔ ان کے مطابق برطانیہ کی مکمل توجہ خطے میں کشیدگی کم کرنے پر مرکوز ہے۔

کیئر سٹارمر نے واضح کیا:

“یہ تنازعہ خطے سے باہر پھیلنے کا حقیقی خطرہ رکھتا ہے۔ ایران کے جوہری پروگرام پر طویل عرصے سے خدشات موجود تھے، اور امریکا نے اس خطرے کو روکنے کے لیے قدم اٹھایا ہے۔”

انہوں نے زور دیا کہ موجودہ حالات میں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ خطے میں استحکام لایا جا سکے۔


🌍 عالمی برادری کی آوازیں: حملے کی مذمت اور مذاکرات پر زور

ایران پر امریکی حملے کے بعد سعودی عرب، کیوبا، چلی، میکسیکو، وینزویلا سمیت متعدد ممالک نے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

🗣 لاطینی امریکہ کا ردعمل:

  • کیوبا کے صدر نے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

  • چلی کے صدر نے پلیٹ فارم X (ٹوئٹر) پر لکھا:

    “امریکی اقدام غیر قانونی ہے، طاقت کا ہونا قوانین کی خلاف ورزی کا جواز نہیں بنتا۔”

🦘 آسٹریلیا و نیوزی لینڈ:

  • دونوں ممالک نے سفارتی راستے اپنانے پر زور دیا ہے۔

  • نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ نے حملے پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ:

    “ہم سفارتکاری کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔”


🇪🇺 یورپی یونین: ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے

یورپی یونین نے بھی کشیدگی میں کمی اور مذاکرات کی فوری بحالی پر زور دیا ہے۔

  • یورپی خارجہ پالیسی کے سربراہ کا کہنا تھا:

    “ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایران کا جوہری پروگرام عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔”

  • کاجا کالاس نے کہا:

    “تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں اور مذاکرات کی میز پر واپس آئیں۔”

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ آئندہ اجلاس میں تازہ صورتحال پر غور کریں گے۔


🔍 تجزیہ:

ایران پر امریکی حملے نے عالمی سفارتی فضا میں ایک نئی سنجیدگی اور خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے۔
جہاں ایک طرف طاقتور ممالک قومی سلامتی کی دلیل دیتے ہوئے فوجی اقدامات کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف عالمی برادری کا ایک بڑا حلقہ اس تنازع کو مذاکرات اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں حل کرنے پر زور دے رہا ہے۔