دنیا July 14, 2025 Shahbaz Sayed

“بھارت اور چین میں دلائی لامہ کی جانشینی پر کشیدگی، بیجنگ کی نئی دہلی کو سخت وارننگ”

تفصیل کچھ یوں ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جو پہلے ہی سرحدی تنازعات موجود تھے، ان میں اب ایک اور نیا تناؤ شامل ہو گیا ہے — اور وہ ہے دلائی لامہ کی جانشینی کا معاملہ۔
بیجنگ نے اس معاملے پر نئی دہلی کو دوٹوک اور سخت تنبیہ کر دی ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق چینی سفارتخانے نے بھارت کو صاف پیغام دیا ہے کہ دلائی لامہ کا دوبارہ جنم یا ان کی جانشینی مکمل طور پر چین کا اندرونی معاملہ ہے۔
چین نے خبردار کیا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی سرکاری مؤقف یا مداخلت دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر 15 جولائی سے چین جا رہے ہیں۔
وہاں وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ 2020 کی خونریز سرحدی جھڑپوں کے بعد یہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلا اعلیٰ سطح کا رابطہ ہو گا۔
یاد رہے کہ ان جھڑپوں میں کم از کم 20 بھارتی اور 4 چینی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

حالیہ دنوں میں بھارت میں دلائی لامہ کی 90ویں سالگرہ کی تقریبات منعقد ہوئیں۔
ان تقریبات میں بھارتی وزرا اور سرکاری حکام نے شرکت کی، جس پر چین شدید ناراض ہوا۔
دلائی لامہ نے اس موقع پر ایک بار پھر کھل کر کہا کہ ان کی جانشینی میں چین کا کوئی کردار نہیں ہو گا، جس پر بیجنگ نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ان بیانات کو اپنی ریاستی خودمختاری کے خلاف قرار دیا ہے۔

نئی دہلی میں چینی سفارتخانے کے ترجمان نے خاص طور پر کہا کہ تبت (چین میں جسے ژیزانگ کہا جاتا ہے) سے متعلق معاملات انتہائی حساس ہیں۔
انہوں نے بھارت کو وارننگ دی کہ دلائی لامہ کا کارڈ کھیلنا بھارت کے لیے خود پر بوجھ ڈالنے اور اپنے ہی پاؤں پر گولی مارنے کے مترادف ہو گا۔

دلائی لامہ 1959 کی چین کے خلاف بغاوت کے بعد سے بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کی موجودگی بھارت کی تزویراتی پالیسی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور چین ہمیشہ سے انہیں ایک انتہائی حساس سفارتی مسئلہ سمجھتا ہے۔

بھارت میں تقریباً 70 ہزار تبتی پناہ گزین بھی آباد ہیں اور ایک جلاوطن تبتی حکومت بھی وہاں قائم ہے۔
دلائی لامہ کی جانشینی کا معاملہ یہ واضح کرتا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان صرف سرحدی تنازعات ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ مسئلہ خطے کی مجموعی سیاسی حرکیات کو بھی مزید حساس اور غیر یقینی بنا رہا ہے۔