خیبرپختونخوا میں کرپشن اسکینڈل پر پی اے سی میں بحث، نیب کی کارروائی میں نقدی، سونا اور گاڑیاں برآمد

چیئرمین کمیٹی جنید اکبر خان نے خیبرپختونخوا میں مبینہ کرپشن کے معاملے کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) میں اٹھا لیا۔
اجلاس کے دوران انہوں نے سوال کیا کہ جب کمیٹی آڈٹ کا کہتی ہے تو متعلقہ حکام آڈٹ پر راضی کیوں نہیں ہوتے؟ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی پوچھا کہ خیبرپختونخوا کے اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) کو اسلام آباد کیسے ٹرانسفر کیا گیا؟
آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ اس کیس میں چیک بُک کا غلط استعمال ہوا ہے اور کرپشن میں ملوث تمام ملازمین فنانس ڈیپارٹمنٹ کے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فراڈ میں تین افراد ملوث تھے، جنہیں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
آڈٹ حکام نے مزید بتایا کہ اس اسکینڈل کی انکوائری اس وقت قومی احتساب بیورو (نیب) کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تین بار فنانس ڈیپارٹمنٹ کو لکھ چکے ہیں کہ یہ آپ کے ملازمین ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں، مگر اب تک کوئی ڈسپلنری ایکشن نہیں لیا گیا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس کیس سے متعلق مزید تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
اسی کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات میں ایک اہم پیش رفت بھی سامنے آئی ہے۔ نیب نے ایبٹ آباد میں اسٹیڈیم روڈ پر چھاپہ مار کر کمیونیکیشن اینڈ ورکس (سی اینڈ ڈبلیو) ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ کلرک کے گھر سے بھاری نقدی، سونا، گاڑیاں اور دیگر قیمتی سامان برآمد کرلیا ہے۔
کارروائی کے دوران ایک ڈمپر ڈرائیور کی چیک بُک بھی برآمد ہوئی۔ نیب نے ہیڈ کلرک کو اس کے رشتہ دار سمیت حراست میں لے لیا ہے۔
اس معاملے پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے سابق اسپیکر مشتاق غنی نے کہا کہ 2019 سے 2024 تک یہ سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سی اینڈ ڈبلیو کے علاوہ بینک اور دیگر محکموں کے افسران بھی ملوث ہوسکتے ہیں۔