واشنگٹن: امریکی اپیل کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹرانس جینڈر پاسپورٹ پالیسی پر عملدرآمد روک دیا، جس کے تحت امریکی شہری صرف “M” (مرد) یا “F” (عورت) کو ہی جنس کے طور پر درج کرا سکتے تھے۔
پس منظر
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد 20 جنوری کو یہ پالیسی نافذ کی تھی۔
اس اقدام کے خلاف امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے عدالت سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ قانون ٹرانس جینڈر، نان بائنری اور انٹرسیکس افراد کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالتی فیصلہ
ابتدائی طور پر ڈسٹرکٹ جج جولیا کوبک نے چھ متاثرہ افراد کو ریلیف دیا اور بعد میں کیس کو کلاس ایکشن قرار دیتے ہوئے پالیسی کو تمام متاثرین کے لیے معطل کر دیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی، تاہم بوسٹن میں فرسٹ سرکٹ کورٹ آف اپیلز کی تین رکنی بنچ نے حکومت کی اپیل مسترد کر دی۔
عدالت کے ریمارکس
فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ یہ پالیسی آئینی اور جواز رکھتی ہے۔
مزید کہا گیا کہ اس پالیسی میں ٹرانس جینڈر امریکیوں کے خلاف امتیازی رویہ ظاہر ہوتا ہے اور اس پر عملدرآمد سے متاثرہ افراد کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا ردعمل
فی الحال وائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہ خارجہ نے عدالتی فیصلے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
یاد رہے کہ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں امریکی شہریوں کو پاسپورٹ میں مرد یا عورت کے علاوہ “X” بطور نیوٹرل جنس منتخب کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔