چیف جسٹس عالیہ نیلم کا جعلی پولیس مقابلوں پر اظہار تشویش، آئی جی پنجاب کو CCD کی کارروائیوں کا جائزہ لینے کی ہدایت

سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ غضنفر حسن کو پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اس پر چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ دیکھتے ہیں آئی جی پنجاب کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟
وکیل نے مزید کہا کہ CCD کے قیام کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کا ایک بیٹا تو مارا جا چکا ہے، جبکہ وہ دوسرے بیٹے کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ “وکیل صاحب، عدالت میں جذباتی باتیں نہیں ہوتیں”۔ انہوں نے پولیس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ریکوری کے بعد جب ملزم کو لے جایا جا رہا تھا تو گاڑی پنکچر ہو گئی، جس پر اس کے ساتھیوں نے حملہ کر دیا، یہ پولیس کا مؤقف ہے۔” چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہ کر سکا اس لیے آئی جی پنجاب کو بلایا گیا، اور جب رپورٹ موصول ہوئی تو کیس کی نوعیت مختلف نکلی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے آئی جی سے مکالمے میں کہا کہ “اگر گاڑی پر فائرنگ ہو رہی ہے تو گولی سیدھی ملزم کو لگتی ہے، نہ گاڑی کو نقصان پہنچا نہ کسی کانسٹیبل کو، اسی لیے آپ کو بلایا گیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ “جو رپورٹ آپ نے پیش کی ہے، اس میں حقائق مختلف نظر آ رہے ہیں۔”
چیف جسٹس نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ایک، ایک دن میں پچاس، پچاس درخواستیں آ رہی ہیں کہ جعلی مقابلے ہو رہے ہیں۔” اس موقع پر انہوں نے آئی جی پنجاب کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا اور انہیں ہدایت دی کہ CCD کے پولیس مقابلوں کا تفصیلی جائزہ لیں۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے مزید کہا کہ “اس وقت CCD کے پولیس مقابلوں کی جو لہر چل رہی ہے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے۔ مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کے خلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آ رہی ہیں، پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر اس معاملے کو دیکھیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔”