لاہور ہائی کورٹ میں ایک دلچسپ قانونی لڑائی جاری ہے جہاں رکن صوبائی اسمبلی افضل ساہی کی نااہلی کا نوٹیفکیشن چیلنج کیا گیا ہے۔ یہ کیس ایک اہم سوال کھڑا کرتا ہے: کیا کسی ممبر کو عدالت سے سزا ملنے کے بعد بھی اس وقت تک ممبر رہنے کا حق ہے جب تک اس کی اپیل کا فیصلہ نہ ہو جائے؟
قانونی نکات پر گرما گرم بحث
درخواست گزار محمد احمد چٹھہ اور محمد احمد خان بچھر کے وکیل شہزاد شوکت ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کے مؤکل کو سنے بغیر ہی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ آئین کے آرٹیکل 63-A کے تحت کسی بھی امیدوار کو نااہل قرار دینے سے پہلے اس کا مؤقف سننا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی کے اسپیکر نے ریفرنس الیکشن کمیشن کو نہیں بھیجا، جو ایک قانونی تقاضا ہے۔
وکیل نے ایک اور اہم سوال اٹھایا کہ کیا انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرح سمجھا جائے گا، جس پر فوری عمل درآمد ہوتا ہے؟ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اگر ان کے موکل کی سزا معطل ہو جاتی ہے تو وہ رکن اسمبلی رہیں گے۔
دوسری طرف، افضل ساہی کی نمائندگی کرنے والے ایڈووکیٹ ارشد نذیر مرزا نے اس دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے ایک سوال اٹھایا: “اگر کوئی شخص قتل کر دے اور اس پر جرم ثابت ہو جائے، تو کیا وہ ممبر اسمبلی رہے گا؟” انہوں نے مزید کہا کہ نااہلی کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اپیل کے لیے 30 دن کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔