کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں 19 اگست کو ہونے والی موسلادھار بارش کے دوران 11 سالہ کمسن احمد رضا اپنی معصوم ہنسی اور خوابوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ گیا۔ کھلے مین ہول میں گرنے کے باعث لاپتہ ہونے والا احمد تین روز بعد ماڑی پور کے قریب مردہ حالت میں ملا تو اہلخانہ پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
احمد رضا دوسری جماعت کا طالب علم تھا، مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرتا اور چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا اور والدین کا لاڈلہ تھا۔ والدین کے بڑھاپے کا سہارا سمجھے جانے والا یہ بچہ محض اداروں کی غفلت کے باعث اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔
“میرا بیٹا واپس آ جائے گا” – ٹوٹی ماں کی فریاد
احمد رضا کی والدہ نے آبدیدہ ہو کر بتایا کہ 19 اگست کو بارش کے دوران احمد گھر میں ہی بارش سے کھیلتا رہا۔ شام کے وقت وہ گھر سے نکلا مگر پھر لوٹ کر نہ آیا۔ والدہ نے روتے ہوئے کہا:
“پہلے پہل ہم نے سمجھا احمد کھیلنے گیا ہے لیکن جب واپسی میں دیر ہوئی تو ساری رات تلاش کرتے رہے۔ دوسرے دن اس کی چپل ملی مگر دل ماننے کو تیار نہ تھا۔ میں سوچتی رہی میرا بیٹا دروازہ کھول کر واپس آ جائے گا… پر یہ مجھے کیا خبر تھی کہ وہ دن میرے بیٹے کا آخری دن تھا۔”
آرمی یونیفارم احمد کی آخری خواہش
احمد رضا کو نعتیں پڑھنے کا شوق تھا اور وہ بڑا ہو کر پاک فوج میں شامل ہونے کا خواب دیکھتا تھا۔ والدہ نے بتایا:
“چودہ اگست کو احمد نے آرمی یونیفارم کی فرمائش کی تھی۔ مجھے کیا پتا تھا یہ اس کی آخری خواہش ہے۔ وہ بڑے بھائی سے پیسے لے کر کپڑے خرید لایا، پہن کر خوش بھی ہوا… اور پھر ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گیا۔”
والد کی فریاد، بھائی کا دکھ
والد منیر احمد، جو ویلڈنگ کا کام کرتے ہیں، نے کہا:
“میرا بیٹا میرا سہارا تھا، مگر اداروں کی غفلت نے میرا سب کچھ چھین لیا۔”
بڑا بھائی صبحان بھی اشکبار تھا، اس کا کہنا تھا کہ:
“ہم چار روز احمد کو ڈھونڈتے رہے مگر کچھ پتا نہ چل سکا۔”
حکومت سے درد بھرا مطالبہ
غمزدہ والدہ نے حکومت اور انتظامیہ سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ شہر میں کھلے مین ہولز پر فی الفور ڈھکن لگائے جائیں تاکہ کسی اور ماں کی گود اجڑنے نہ پائے اور کسی اور بچے کا خواب ادھورا نہ رہ جائے۔