صحت July 22, 2025 Shahbaz Sayed

“کراچی میں مون سون کی بارشوں کے بعد مکھیوں، مچھروں اور بیماریوں کی یلغار – حکومتی اقدامات کا فقدان تشویشناک”

جب بھی کراچی میں مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں، تو شہریوں کے لیے ایک اور آزمائش بھی ساتھ لے آتی ہیں — وہ ہے گندگی، بدبو، اور بیماریوں کی بھرمار۔ گلیوں اور شاہراہوں پر بارش کا پانی جمع ہونے لگتا ہے، سیوریج کا نظام بیٹھ جاتا ہے، اور نتیجے میں ایسا تعفن پھیلتا ہے کہ سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اب یہ بات بھی چھپی نہیں رہی کہ شہر میں کچرا اُٹھانے کا کوئی سائنسی یا مؤثر نظام موجود نہیں، بلکہ اکثر جگہوں پر یہ کچرا بس ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیا جاتا ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہو جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی گندگی مکھیاں اور مچھر پیدا کرتی ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کرکے ڈائریا، ہیضہ، ڈائسینٹری، اور پیٹ کی دیگر خطرناک بیماریوں کا سبب بنتی ہیں۔ ماہرِ حشریات پروفیسر نوید رب صدیقی کے مطابق کراچی میں مکھیوں کی پانچ اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں ہاؤس فلائی، ڈرین فلائی، فلیش فلائی، بلیو باٹل فلائی، اور گرین باٹل فلائی شامل ہیں۔ مون سون کا موسم ان کی افزائش کے لیے بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

یہ مکھیاں بارشوں کے دنوں میں زیادہ سرگرم ہو جاتی ہیں، کیونکہ یہ موسم پھلوں اور سبزیوں کے گلنے سڑنے کا ہوتا ہے۔ یہی سڑتی اشیاء ان مکھیوں کی خوراک بنتی ہیں، وہیں انڈے دیتی ہیں، اور وہاں سے لاروے نکل کر مکمل مکھیاں بن جاتی ہیں۔ پروفیسر نوید نے بتایا کہ ایک ہاؤس فلائی تین سے چار دن کے وقفے سے تقریباً 500 انڈے دیتی ہے، اور ان کا لائف سائیکل اتنا تیز ہوتا ہے کہ ان کی آبادی تیزی سے بڑھتی ہے۔

ان مکھیوں کے منہ اور ٹانگوں کے ذریعے جراثیم کھانے پینے کی اشیاء میں منتقل ہوتے ہیں، جو لوگوں کو مختلف انفیکشنز میں مبتلا کرتے ہیں۔ کچھ مکھیاں خون بھی چوستی ہیں، جو زیادہ تر ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔

بارش کے ساتھ ساتھ مچھر بھی فعال ہو جاتے ہیں، خاص طور پر ڈینگی اور ملیریا پھیلانے والے مادہ مچھر۔ یہ مچھر زمین پر انڈے دیتی ہیں، اور جب بارش سے زمین نم ہو جاتی ہے، تو لاروے نکلنے لگتے ہیں۔ ان کی پرورش کے لیے انسانی خون کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ڈینگی اور ملیریا تیزی سے پھیلتے ہیں۔

ماہر فزیشن ڈاکٹر آفتاب حسین نے بتایا کہ بدقسمتی سے سندھ بھر میں ڈینگی سے بچاؤ کے لیے تاحال اسپرے مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے۔ 2020 سے 2024 کے دوران سندھ میں ڈینگی کے 37,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جن میں 96 افراد جاں بحق ہوئے۔ صرف 2022 میں ہی 22,000 سے زائد افراد متاثر اور 64 اموات ہوئیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تشویشناک اعدادوشمار کے باوجود، کراچی سمیت سندھ بھر میں مچھر مار اسپرے کی باقاعدہ مہمات نہیں چلائی جا رہیں۔ ضلعی ہیلتھ افسران کے مطابق، اسپرے کے لیے درکار ویکٹر بون ڈیزیز کا عملہ انتہائی ناکافی ہے۔ ایک ضلع میں بمشکل ایک یا دو اہلکار موجود ہیں، جو کہ اتنے بڑے شہر کے لیے ناکافی ہیں۔

ڈاکٹر مشتاق شاہ، جو کہ ویکٹر بون ڈیزیز پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ ضلعی ہیلتھ افسران کو فنی امداد فراہم کر رہے ہیں اور کئی علاقوں میں اسپرے مہم کا آغاز بھی ہو چکا ہے، لیکن ابھی بھی بہت سے علاقے اس سے محروم ہیں۔

ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر آئندہ دنوں میں مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2025 کے آخر تک ڈینگی کی صورتحال خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی وارڈز فعال نہ ہونا اور نجی اسپتالوں میں مہنگا علاج غریب شہریوں کے لیے ایک الگ مصیبت ہے۔