چینی بحران پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سخت مؤقف: امپورٹ، ایکسپورٹ، قیمتوں اور کارٹیلز پر سوالات اٹھا دیے گئے

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں ملک میں چینی کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے کمیٹی کو بتایا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس سال چینی کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پچھلے سال 87 میٹرک ٹن چینی پیدا کی گئی تھی، جبکہ رواں سال پیداوار کم ہو کر 84 میٹرک ٹن رہ گئی۔ پچھلے سال 77 شوگر ملز نے کرشنگ کی، جبکہ اس سال یہ تعداد 79 رہی۔ قیمتوں میں اضافے کے پیش نظر بفر اسٹاک کے لیے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی سمری منظور کر لی گئی ہے۔
اس موقع پر رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے توجہ دلائی کہ ایف بی آر نے نیا ایس آر او جاری کیا، جس کے تحت چینی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے 0.2 فیصد کر دیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ جب عوام کے مفاد کا معاملہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف اجازت نہیں دیتا، لیکن سرمایہ داروں کے لیے کوئی پابندی نہیں؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ چینی کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کی اجازت کس نے دی؟ اور یہ کون لوگ ہیں جو ہر حکومت میں فائدہ اٹھاتے ہیں؟
رکن کمیٹی خواجہ شیراز نے استفسار کیا کہ ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی کس منصوبے کے تحت ملک سے باہر بھیجی گئی؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے جواب دیا کہ چینی کی برآمد پر چار مختلف ٹیکسز کو صفر رکھا گیا تھا۔ جنید اکبر نے اس پر سوال کیا کہ کیا آئی ایم ایف اس معاملے پر خاموش رہے گا؟ جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میرا خیال ہے آئی ایم ایف ضرور اس پر کچھ کہے گا۔
نوید قمر نے رائے دی کہ حکومت کو چینی کی قیمت کو کنٹرول نہیں کرنا چاہیے اور چینی کی درآمد و برآمد کا مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ مارکیٹ میں موجود کارٹیلز ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا مسابقتی کمیشن نے اس کارٹیلازیشن کے خلاف کوئی مؤثر قدم اٹھایا؟ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے باعث اگر حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں تو کارٹیل مافیا پورے معاہدے کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی ماضی میں چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ حکومت کو گندم کی قیمت کا ضرور خیال رکھنا چاہیے، لیکن چینی کی مارکیٹ کو فری چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ انہوں نے شکایت کی کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں کوئی ٹھوس مشاورت نہیں ہوتی، حالانکہ وہ خود بھی اس کا رکن رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹیکسٹائل ملز لگانے پر کوئی قدغن نہیں، تو شوگر ملز پر بھی ایسی پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں۔
معین عامر نے تجویز دی کہ شوگر ملز کے لائسنس کھول دیے جائیں تاکہ ہر کوئی اس شعبے میں سرمایہ کاری کر سکے۔
اجلاس کے اختتام پر جنید اکبر نے ہدایت دی کہ آئندہ ہفتے کمیٹی کو مکمل بریفنگ دی جائے، جس میں واضح طور پر بتایا جائے کہ چینی کی امپورٹ و ایکسپورٹ کس نے کی، کس کو اجازت دی گئی اور اس عمل کے پیچھے کون لوگ تھے۔