اسلام آباد: پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سب سے بڑا شکار بن رہا ہے لیکن عالمی برادری کی جانب سے وعدوں کے باوجود ملک کو عملی طور پر امداد کے بجائے قرضوں کا بوجھ دیا گیا ہے۔ اجلاس کی صدارت جنید اکبر نے کی جبکہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے موجودہ صورتحال اور مستقبل کے خطرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔
چیئرمین این ڈی ایم اے کے مطابق پاکستان میں آئندہ برس موسمیاتی شدت میں 22 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اگر درجہ حرارت بڑھتا رہا تو ملک کے 7500 گلیشیئر تیزی سے پگھلنے لگیں گے، جس سے خشک سالی، فوڈ سکیورٹی اور پانی کی قلت جیسے بڑے بحران سامنے آئیں گے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ چترال اور اسکردو جیسے علاقے مستقبل میں سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ مون سون کا موجودہ دباؤ 10 ستمبر تک برقرار رہے گا۔ ستلج کے علاقے سے اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں جبکہ مختلف متاثرہ علاقوں میں 2100 ٹن امدادی سامان بھجوایا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں تباہ شدہ مقامات کی تعمیر نو بھی کی جائے گی۔
اجلاس میں چیئرمین جنید اکبر نے عالمی رویے پر سخت سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ماحولیاتی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان ہمیں اٹھانا پڑ رہا ہے۔ “ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہم موسمیاتی تبدیلی کی سزا بھگت رہے ہیں، مگر امداد کے بجائے قرضے دیے جا رہے ہیں۔”
بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد دنیا نے پاکستان کو 10.98 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن عملی طور پر زیادہ تر رقم قرضوں کی شکل میں ملی۔ صرف 21 لاکھ ڈالر گرانٹ موصول ہوئی جبکہ سعودی عرب نے 1 ارب ڈالر کا تیل ادھار دیا۔ مجموعی طور پر پاکستان کو صرف 93 کروڑ ڈالر کی عارضی فنڈنگ ملی۔
سیکرٹری اقتصادی امور نے انکشاف کیا کہ سیلاب کے بعد پاکستان کو 16 ارب ڈالر کی ضرورت تھی، مگر عالمی اداروں جیسے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کی بڑی کمٹمنٹس بھی زیادہ تر قرض نکلیں۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے صرف فوری ریسکیو اور ریلیف کافی نہیں بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی ناگزیر ہے تاکہ آئندہ آنے والی تباہ کاریوں سے ملک کو بچایا جا سکے۔