مسز خان کی ’موٹی‘ لڑکیوں پر رائے: صاف گوئی یا بدنما تعصب؟

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت ایک بار پھر مسز خان کا نام موضوعِ بحث ہے، جنہوں نے حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں جسمانی وزن، رشتہ کلچر اور خواتین کی ظاہری شخصیت پر متنازع گفتگو کی۔
معروف ٹی وی شخصیت مسز خان اپنے بےباک تبصروں اور روایتی رشتہ کلچر پر تنقید کے لیے پہچانی جاتی ہیں، لیکن اس بار ان کی ’موٹی‘ لڑکیوں سے متعلق کی گئی رائے نے انہیں شدید تنقید کی زد میں لا کھڑا کیا ہے۔
📺 پروگرام میں کیا کہا؟
پروگرام کے دوران جب ان سے جسمانی وزن سے متعلق رائے دینے کو کہا گیا تو انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز “دبلی پتلی لڑکیوں” سے کیا اور کہا:
“آج کل سوکھی لڑکیاں اِن ہیں۔”
اس کے بعد بات بڑھاتے ہوئے انہوں نے زیادہ وزن رکھنے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مسز خان کے مطابق:
-
موٹی لڑکیاں رشتہ بازار میں بار بار مسترد ہوتی ہیں۔
-
چاہے وہ خود کو جتنا بھی سنوار لیں، ان پر “کوئی فیشن جچتا نہیں”۔
-
مسلسل انکار کی صورت میں وہ مایوسی میں مبتلا ہو کر مزید کھانا کھانے لگتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ:
“اگر ایسی لڑکیوں کے پاس اچھی نوکری ہو، تو اکثر مرد انہیں قبول کر لیتے ہیں۔”
🌐 سوشل میڈیا پر شدید ردعمل
ان بیانات کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے مسز خان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
بیشتر صارفین کا مؤقف تھا کہ:
-
یہ بیانات خواتین کی جسمانی تضحیک کے مترادف ہیں۔
-
ایسے خیالات معاشرے میں “باڈی شیمنگ” کو فروغ دیتے ہیں۔
-
یہ رشتوں کو محض جسمانی معیار سے جوڑنے کا منفی رویہ ہے۔
ایک صارف نے لکھا:
“جسمانی ساخت انسان کے کردار، قابلیت یا رشتوں کے حق دار ہونے کا معیار نہیں ہو سکتی۔”
🔍 سماجی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ماہرین سماجیات کے مطابق:
-
میڈیا پر موجود شخصیات کی باتیں معاشرتی رویوں کو تشکیل دیتی ہیں۔
-
جب کوئی عوامی شخصیت “موٹاپے” کو کم تری یا رشتے کی ناکامی سے جوڑتی ہے، تو یہ نفسیاتی دباؤ اور احساسِ کمتری کا باعث بنتا ہے۔
⚖️ اظہارِ رائے اور سماجی ذمے داری کا توازن
مسز خان کا مؤقف یہ ہے کہ وہ سچ بولتی ہیں، خواہ کڑوا ہی کیوں نہ ہو، لیکن موجودہ تنقید سے واضح ہے کہ صاف گوئی اور تضحیک کے درمیان حد عبور کرنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اظہارِ رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے، لیکن عوامی سطح پر کہے گئے الفاظ کی حساسیت اور اثر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
🔚 نتیجہ:
مسز خان کی گفتگو نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ کیا ہم رشتوں کے فیصلے ظاہری ساخت پر کریں گے یا شخصیت اور قابلیت پر؟
اس واقعے نے معاشرے میں موجود غیر محسوس تعصبات کو نمایاں کیا ہے—اور شاید اسی پر بات ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔