ٹیکنالوجی July 17, 2025 Shahbaz Sayed

ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار کسی دور دراز ستارے کے گرد سیارے بنتے ہوئے دیکھ لیے

ماہرین فلکیات نے سورج جیسے ایک نوجوان ستارے کے گرد سیاروں کی تشکیل کے ابتدائی مراحل کا براہِ راست مشاہدہ کیا ہے، جو کہ ہماری اپنی کائناتی ابتدا کو سمجھنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ نیا سیاروی نظام HOPS-315 نامی ایک نو عمر ستارے کے گرد بن رہا ہے، جو زمین سے 1300 نوری سال کے فاصلے پر اورائین نیبولا میں واقع ہے۔

HOPS-315 اپنے گرد موجود گیس اور گرد و غبار کی پروٹوپلانیٹری ڈسک میں گھرے ہوئے ہے — وہی ماحول جہاں سیارے جنم لیتے ہیں۔ ان ڈسکوں میں موجود سلیکون مونو آکسائیڈ پر مشتمل قلمی معدنیات سیاروی ساخت کی ابتدا کی نشاندہی کرتی ہیں۔

یہ معدنیات وقت کے ساتھ کلو میٹر سائز کے پلانیٹسملز میں بدلتی ہیں، جو بعد میں مکمل سیاروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ عمل وہی ہے جو اربوں سال قبل ہمارے نظامِ شمسی میں بھی وقوع پذیر ہوا تھا۔

تازہ تحقیق کے مطابق، HOPS-315 کی ڈِسک میں ایسی ہی گرم معدنیات کو ٹھوس شکل میں تبدیل ہوتا ہوا دیکھا گیا ہے۔ یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے “نیچر” میں شائع ہوئی ہے۔

مطالعے کی مرکزی مصنفہ میلیسا میک کلور (لیڈن یونیورسٹی، نیدرلینڈز) کے مطابق، یہ پہلا موقع ہے جب سورج کے علاوہ کسی اور ستارے کے گرد سیاروں کی تشکیل کے آغاز کو براہِ راست دیکھا گیا ہے۔

ان قلمی معدنیات کا ابتدائی مشاہدہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ہوا، جس کے بعد ماہرین نے چلی میں واقع ایٹاکاما لارج ملی میٹر/سب ملی میٹر ایرے (ALMA) ٹیلی اسکوپ کا استعمال کر کے ان کی اصل جگہ کی نشاندہی کی۔

ماہرین کے مطابق، یہ معدنیات ڈِسک کے ایک محدود حصے میں موجود ہیں، جو ساخت میں ہمارے سورج کے گرد موجود شہابی پٹی جیسا ہے، اور یہ عمل زمین جیسے سیارے کی پیدائش کو سمجھنے کا نایاب موقع فراہم کرتا ہے۔

تحقیق کی شریک مصنفہ میرل وانٹ ہوف (پوردو یونیورسٹی، امریکا) کا کہنا تھا،

“ہم ایک ایسے نظام کو براہِ راست دیکھ رہے ہیں جو بالکل ویسا ہی ہے جیسا ہمارا نظامِ شمسی اپنی تشکیل کے آغاز میں دکھائی دیتا ہوگا۔”