سیاست August 3, 2025 Shahbaz Sayed

عدلیہ، فوجی عدالتیں اور 26ویں ترمیم: انصاف پر بڑھتے سوالات اور سیاسی اثرات

اسلام آباد — پاکستان میں عدلیہ، آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے کردار پر جاری مباحثے نے ایک بار پھر نظامِ انصاف اور جمہوریت کے توازن کو موضوعِ بحث بنا دیا ہے۔ 26ویں اور 27ویں آئینی ترامیم، سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل، اور اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم جیسے معاملات سے جُڑی صورتحال نے سیاسی ماحول کو مزید الجھا دیا ہے۔


⚖️ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی توثیق

ایک حالیہ آئینی ترمیم کے تحت آئینی بینچ نے 103 سویلین مقدمات کو فوجی عدالتوں میں چلانے کی توثیق کر دی ہے۔
ان مقدمات میں عمران خان کے بھانجے سمیت متعدد افراد شامل ہیں، جنہیں سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔ تاہم، یہ سزایافتگان اب بھی فوجی عدالتوں کے خلاف اپیل کے حق کے لیے ممکنہ قانون سازی کے منتظر ہیں۔

تا حال حکومت کی جانب سے اس معاملے پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا، جس سے قانونی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔


🏛️ گرمیوں کی تعطیلات اور عدالتی فیصلے

عدالتی تعطیلات کے دوران بھی عدالتوں نے تین اہم کیسز میں فیصلے سنائے:

  1. مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کی اپیل،

  2. ججوں کے تبادلے،

  3. اور فوجی عدالتوں پر مقدمات۔

ادھر حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے لیے مناسب وقت کا انتظار کر رہی ہے۔


⚔️ 9 مئی کے بعد محاذ آرائی اور عدلیہ کا کردار

9 مئی کے واقعات کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔
اس دوران عدلیہ کے کردار پر بھی نظریں مرکوز ہو گئیں، خاص طور پر جب سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے عمران خان کی گرفتاری پر نوٹس لیا اور انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا، جسے اسٹیبلشمنٹ نے مایوس کن اقدام قرار دیا۔


👨‍⚖️ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پالیسی

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں:

  • فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے والا فیصلہ معطل کر دیا گیا،

  • 9 مئی مقدمات میں پی ٹی آئی کو کم ریلیف ملا،

  • اور انتخابی بے ضابطگیوں پر کوئی واضح کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

ان کے اقدامات کو بعض حلقے حکومت کی جانب جھکاؤ سمجھتے ہیں، جبکہ وکلاء برادری میں ان کے کردار پر تقسیم موجود ہے۔


🔁 ججوں کی تقرریاں اور تبادلے: نیا دباؤ؟

  • لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد کو سپریم کورٹ میں لانے پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔

  • انہیں 9 مئی مقدمات میں شفافیت کے لیے سرگرم سمجھا جاتا ہے۔

  • ان کی ترقی کے بعد انسداد دہشت گردی عدالتوں میں ججوں کے تبادلے بھی کئے گئے۔

ادھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی تقرری کو حکومت کی پسند قرار دیا جا رہا ہے۔


🔒 26ویں ترمیم کے اثرات اور عدالتی آزادی کا سوال

26ویں آئینی ترمیم کے بعد:

  • اعلیٰ عدلیہ میں جج دو کیمپوں میں بٹ گئے ہیں،

  • عدلیہ پر انتظامیہ کا اثر رسوخ بڑھ گیا ہے،

  • اور اختلاف کرنے والے جج سائیڈ لائن کیے جا رہے ہیں۔

حکومت اور انتظامیہ ہائیکورٹس سے مطمئن نظر آتی ہیں، لیکن سپریم کورٹ میں اختلافی آوازیں دبتی جا رہی ہیں۔


⚠️ وکلا برادری کی تشویش

وکلا کا کہنا ہے کہ اگر عدالتی فیصلوں میں شفافیت اور قانونی تقاضے نظر انداز ہوتے رہے تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو سکتا ہے۔
انہوں نے تجویز دی کہ عدلیہ کو خود ہی مؤثر میکانزم بنا کر اپنی خودمختاری کا تحفظ کرنا ہوگا۔


🔚 نتیجہ

پاکستان کی عدالتی، آئینی اور سیاسی صورتحال اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔
جہاں قانون کی بالادستی، اداروں کی خودمختاری اور انصاف کی شفافیت کے بنیادی اصولوں پر نئے سوالات جنم لے رہے ہیں، وہیں عدلیہ کی سمت کا تعین بھی مستقبل کے سیاسی نقشے میں اہم کردار ادا کرے گا۔