انٹرٹینمنٹ August 3, 2025 Shahbaz Sayed

عتیقہ اوڈھو کی وضاحت: وائرل بیانات، سوشل میڈیا کا تماشا یا سنجیدہ مکالمہ؟

حالیہ دنوں میں یوٹیوب شو ’’کیا ڈرامہ ہے‘‘ میں معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو کی گفتگو کے کچھ اقتباسات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے، جن پر تنقید اور بحث کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ متنازع بیانات میں ارینج میرج اور اداکار علی رضا کے سینے کے بال سے متعلق تبصرے شامل تھے۔

وائرل تبصروں کے بعد عتیقہ اوڈھو نے اسی شو کے ایک حالیہ ایپی سوڈ میں ان بیانات پر وضاحت پیش کی، جس میں انہوں نے نہ صرف اپنے مؤقف کو صاف انداز میں بیان کیا بلکہ سوشل میڈیا کے رویوں پر بھی سوال اٹھائے۔


💬 ارینج میرج پر بیان: “یہ انسانی تجسس تھا”

عتیقہ اوڈھو نے واضح کیا کہ ان کا “دو اجنبیوں کے درمیان اچانک ازدواجی رشتہ بننے” پر سوال اٹھانا کسی تنقیدی یا منفی نیت سے نہیں تھا۔ انہوں نے کہا:

“میں نے بس ایک انسانی فطری تجسس کے تحت پوچھا تھا کہ وہ کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟”

ان کے مطابق اس بات پر انہیں کئی انسٹاگرام صارفین نے پیغامات بھیجے، اور اپنی کہانیاں اور جذبات شیئر کیے، جو اس مکالمے کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔


🧔 علی رضا کے سینے کے بالوں پر تبصرہ: تکنیکی نکتہ یا بدنیتی؟

عتیقہ اوڈھو کے ایک اور بیان پر بھی خاصی لے دے ہوئی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ:

“ٹی وی اسکرین پر مرد اداکاروں کے بال دار سینے کو دکھانا مناسب نہیں لگتا۔”

اس وضاحت میں انہوں نے کہا کہ یہ بیان اداکاری کی تکنیکی پہلوؤں سے متعلق تھا، نہ کہ کسی اداکار کی توہین یا حوصلہ شکنی کے لیے۔

“ہم ان نوجوان فنکاروں کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں، جیسے علی رضا۔ وہ ہمارے لیے بچوں جیسے ہیں، اور اگر ہم کچھ کہتے ہیں تو وہ اصلاح کی نیت سے ہوتا ہے۔”


🌐 سوشل میڈیا پر ردعمل: فطری اظہار یا حد سے بڑھی تنقید؟

عتیقہ اوڈھو نے سوشل میڈیا پر غیر متوازن اور سنسنی خیز ردعمل پر بھی افسوس کا اظہار کیا:

“افسوس کہ سوشل میڈیا ہر بات کو تماشا بنا دیتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ شو میں کئی اہم تکنیکی نکات زیرِ بحث آتے ہیں، لیکن وائرل ہونے والی چیزیں اکثر سنجیدہ گفتگو کو غیر سنجیدہ رنگ دے دیتی ہیں۔


🎭 اداکاری اور اظہارِ رائے کی حدود کہاں؟

یہ معاملہ ایک بڑے سوال کو جنم دیتا ہے: کیا معروف شخصیات کو ہر بیان سے قبل ردعمل کا اندازہ لگانا چاہیے؟ یا کیا سوشل میڈیا کو ہر بات کا مذاق بنانے کا حق حاصل ہے؟

عتیقہ اوڈھو کا موقف یہ رہا کہ:

  • وہ صاف گو اور کھلے ذہن کی مالک ہیں

  • میڈیا کے توسط سے سماجی رویوں پر بات چیت ہونی چاہیے

  • اور سینئرز کو نوجوان فنکاروں کی اصلاح کا حق ہونا چاہیے، بشرطِ نیت درست ہو


🔚 نتیجہ:

عتیقہ اوڈھو کا یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آج کے دور میں اظہارِ رائے اور غلط فہمی کے درمیان فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت گفتگو کو آگے بڑھا بھی سکتی ہے، اور غیر متوازن بنا بھی سکتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ سماجی مکالمے کو نیت، سیاق و سباق اور تہذیب کے دائرے میں پرکھا جائے۔