“خوراک کے منتظر بھوکے فلسطینیوں پر فائرنگ، فضائی امداد ناکافی اور خطرناک، جرمنی اور اقوامِ متحدہ کا انتباہ”

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوراک کے منتظر فلسطینی شہریوں پر براہِ راست فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق و زخمی ہوئے۔ ہسپتال ذرائع کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب شہری امداد کے انتظار میں کھڑے تھے۔
بین الاقوامی ردِعمل:
اس افسوسناک واقعے پر جرمن حکومت نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان اسٹفن کورنیلیس نے کہا:
“غزہ میں امداد کی فراہمی میں معمولی بہتری آئی ہے، لیکن یہ اب بھی انتہائی ناکافی ہے۔”
انہوں نے اسرائیل کو امدادی رکاوٹوں کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا اور زور دیا کہ:
“امن کی بحالی کے لیے مکمل اور بغیر کسی رکاوٹ کے امدادی رسائی ناگزیر ہے۔”
اقوامِ متحدہ کی وارننگ:
اسی دوران اقوامِ متحدہ کے سابق انسانی امور کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے ایک اور تشویشناک پہلو کی طرف اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ:
“غزہ میں فضائی امداد ایک محدود اور خطرناک طریقہ ہے، جو زمین پر مزید افراتفری، لوٹ مار اور ہلاکتوں کا سبب بن رہا ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ:
-
ایک کارگو طیارہ صرف 40 ٹن امداد لے سکتا ہے
-
جبکہ ایک زمینی ٹرک تقریباً 160 ٹن تک سامان لے جا سکتا ہے
-
اس حساب سے فضائی امداد زمینی نقل و حمل کا مؤثر متبادل نہیں
انسانی المیہ:
غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں:
-
60,332 فلسطینی شہید
-
1,47,643 افراد زخمی
-
لاکھوں بے گھر اور بنیادی سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں
اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارے غزہ کی صورتحال کو ایک “بدترین انسانی بحران” قرار دے رہے ہیں۔
نتیجہ:
غزہ میں امداد کی مؤثر اور محفوظ ترسیل نہ صرف انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے بلکہ کسی بھی مستقل امن عمل کے لیے بنیادی شرط بھی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے امدادی رکاوٹیں، فائرنگ اور جنگی حکمتِ عملی نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں بلکہ خطے میں پائیدار امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی۔