خلا میں وزن کی کمی بینائی پر اثر انداز: ناسا کی نئی تحقیق میں انکشاف

واشنگٹن: امریکی خلائی ادارہ ناسا خلا میں طویل قیام کے انسانی صحت پر اثرات کا جائزہ لیتا رہا ہے، اور اب سائنس دان اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خلا میں وزن کی کمی (مایکرو گریویٹی) کس طرح بینائی کو متاثر کرتی ہے۔
اس مسئلے کی پہلی نشاندہی ڈاکٹر سارہ جانسن نے کی، جو ایک چھ ماہ کا مشن مکمل کرنے کے بعد زمین پر واپس آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ خلا میں قیام کے بعد وہ تحریریں جو روانگی سے قبل بالکل واضح نظر آتی تھیں، اب دھندلی دکھائی دینے لگی ہیں۔
یہ مسئلہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں۔ خلائی اسٹیشن سے واپس آنے والے متعدد خلانوردوں نے بینائی میں مسلسل تبدیلیوں کی شکایت کی ہے، جن میں پڑھنے میں دشواری، دور کی نظر کا کمزور ہونا، اور دیگر بصری مسائل شامل ہیں — بعض اوقات یہ اثرات زمین پر واپسی کے کئی سال بعد تک برقرار رہتے ہیں۔
ماہرین اس کیفیت کو اسپیس فلائٹ ایسوسی ایٹڈ نیورو-اوکیولر سنڈروم (SANS) کے نام سے شناخت کرتے ہیں۔ یہ طویل مدتی خلائی مشنوں کے لیے ایک سنگین طبی مسئلہ سمجھا جا رہا ہے۔ دیگر جسمانی مسائل جیسے پٹھوں کی کمزوری وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں، لیکن بینائی میں آنے والی تبدیلیاں بعض اوقات مستقل ہو جاتی ہیں۔
ناسا کے مطابق اس مسئلے کی ممکنہ وجہ خلا میں موجود مایکرو گریویٹی کا اثر ہے۔ زمین پر کششِ ثقل جسمانی فلوئڈز کو نیچے کی جانب کھینچتی ہے، جبکہ خلا میں یہی فلوئڈز پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں، جس سے چہرہ سوج جاتا ہے اور کھوپڑی کے اندر دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی اضافی دباؤ آنکھوں اور بصری نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ناسا کے سائنس دان اس سنڈروم کی وجوہات اور علاج کے امکانات پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، تاکہ مستقبل کے طویل خلائی مشنوں، خصوصاً مریخ جیسی دُور دراز مہمات کے لیے ممکنہ طبی خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی وضع کی جا سکے۔