اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو سات صفحات پر مشتمل خط ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے عدالتی امور اور فل کورٹ کی تشکیل نہ دینے سے متعلق چھ اہم سوالات کے جوابات طلب کیے ہیں۔
خط کے اہم نکات
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے درج ذیل سوالات اٹھائے:
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟
سپریم کورٹ رولز کی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں دی گئی؟
اختلافی نوٹ سے متعلق پالیسی میں انفرادی مشاورت کیوں کی گئی؟
ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟
ججز کو خود مختار بنانے کے بجائے کنٹرولڈ فورس کے طور پر کیوں پروان چڑھایا جا رہا ہے؟
عدالتی شفافیت پر زور
جسٹس منصور نے خط میں امید ظاہر کی کہ نئے عدالتی سال کے آغاز اور 8 ستمبر کو ہونے والی جوڈیشل کانفرنس میں چیف جسٹس ان سوالات کا عوامی سطح پر جواب دیں گے۔ ان کے مطابق، اس سے ججز اور عوام دونوں کا اعتماد بحال ہوگا اور واضح ہو گا کہ عدالتی اصلاحات آئین کے مطابق اور شفاف انداز میں ہو رہی ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اکتوبر 2024 سے اب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی کوئی باضابطہ میٹنگ نہیں ہوئی اور بینچز مشاورت کے بغیر تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ طور پر کاز لسٹ جاری کی جاتی ہے اور ججز کے روسٹر بغیر مشاورت کے دستخط کے لیے بھجوائے جاتے ہیں۔
سینئر اور جونیئر ججز کی تقسیم
جسٹس منصور نے شکوہ کیا کہ سینئر ججز کو دو رکنی جبکہ جونیئر ججز کو تین رکنی بینچز دیے جا رہے ہیں۔ مزید برآں قومی اہمیت کے مقدمات سینئر ججز کے سامنے مقرر نہیں کیے جا رہے، جسے انہوں نے “سینئر ججز کو سائیڈ لائن کرنے” کے مترادف قرار دیا۔
کارکردگی کا حوالہ
خط میں انہوں نے اپنی عدالتی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے دور میں سب سے زیادہ 3956 مقدمات انہوں نے نمٹائے اور 35 رپورٹڈ فیصلے تحریر کیے۔ ان کے مطابق، یہ خط کسی ذاتی رنجش یا متاثرہ شخص کا نہیں بلکہ ادارے کی بہتری کے لیے ایک ذمہ دار جج کی کاوش ہے۔
نتیجہ
جسٹس منصور علی شاہ کا یہ خط سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات اور ججز کی باہمی مشاورت سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کی جانب سے ان سوالات کا جواب عدلیہ کے وقار اور شفافیت کے لیے نہایت اہم ہوگا۔