“اسرائیلی کرنل نے بچوں پر گولی مارنے کا حکم دیا، امریکی فوجی نے انکار کر دیا”

غزہ میں اسرائیلی مظالم کے ایک اور اندوہناک پہلو سے پردہ اٹھ گیا ہے۔ سابق امریکی فوجی اینتھونی ایگوئیلر نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح اسرائیلی کرنل نے غزہ میں امدادی سامان لینے آئے بھوکے بچوں پر گولی چلانے کا حکم دیا۔
اینتھونی، جو ایک امریکی امدادی تنظیم کی سائٹ نمبر 2 پر تعینات تھے، نے سینیٹر کرس وین ہولن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا:
“میں کنٹرول روم میں تھا، بچوں کو بھیڑ سے بچنے کے لیے ایک شخص نے کندھے پر اٹھایا، تبھی ایک اسرائیلی کرنل نے کہا کہ اپنے اہلکاروں سے کہو ان بچوں کو نیچے کریں۔”
جب اینتھونی نے انکار کیا تو کرنل نے دھمکی دی کہ:
“اگر تم نے نہیں کیا تو میں خود کروں گا۔”
بعد میں کرنل نے عبرانی زبان میں ریڈیو پر کچھ کہا، جس کا ترجمہ وہیں موجود سیکورٹی کانٹریکٹر نے یوں کیا:
“اس نے اپنے اسنائپرز کو حکم دیا ہے کہ بچوں پر گولی چلائیں!”
اینتھونی کا کہنا تھا:
“یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے، میں نے کرنل سے کہا کہ اگر تم نے گولی چلائی تو معصوم بچے ہی نہیں، دوسرے بھی مارے جا سکتے ہیں۔”
خوش قسمتی سے اس سے پہلے کہ کچھ ہوتا، بچے وہاں سے نیچے اتر کر بھاگ چکے تھے۔ اینتھونی نے بتایا کہ:
“ان بچوں کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے، وہ بھوکے تھے، ان کے جسم پر مکمل لباس بھی نہیں تھا۔”
واقعے کے بعد اینتھونی کو ان کے اعلیٰ افسر نے بلایا اور ڈانٹتے ہوئے کہا:
“کلائنٹ کو کبھی نہ مت کہنا۔”
جب اینتھونی نے پوچھا کہ کلائنٹ کون ہے تو انکشاف ہوا کہ:
“ہمارا کلائنٹ آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) ہے۔”
یہ تمام واقعہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ امدادی کاموں کے پیچھے چھپی طاقتیں کس طرح انسانی جانوں کو نظر انداز کرتی ہیں، اور یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا امریکہ واقعی انسانی حقوق کا علمبردار ہے؟